★ _*تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال*_ ★
*============================*
_*روضـــہ نبــوی ﷺ ســے تــوســل عـام الفـتــق کا ســال اور حــدیــث سیــدہ عـائشـــہؓ صــدیقـــہ کــی تحـقیــق علــم حـــدیــث و اصـــول جـــرح و تعــدیــل کــی روشنــی میــں*_
*============================*
*اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ*
*_★اَلسَّـــــــــــــــــــــــــلَامُ عَــــلَــيْــكُــمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَ ْكَاتُـــــــــــــــــــــــــهٗ ☜_🌹*
*❖◉➻══•══※✦※══•══➻◉❖*
✍️ امام دارمیؒ المتوفیٰ (255ھ) نے فرمایا *⇊*
*93* - حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطًا شَدِيدًا، فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ: " انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ. قَالَ: فَفَعَلُوا، فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْإِبِلُ حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ رجاله ثقات وهو موقوف على عائشة
📓 مسند الدارمی المعروف سنن دارمی 1/227
ترجمہ: اؤس بن عبد اللہ فرماتے ہیں اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عائشہؓ سے یہ حالت بیان کی انہوں نے فرمایا جاؤ روضہ نبی ﷺ کو اوپر کی طرف سے تھوڑا سا کھول دو اس طرح کہ روضہ اور آسمان کے درمیان کوئی چھت نہ ہو کہتے ہیں لوگوں نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیﷻ نے اتنی بارش نازل فرمائی کہ ہر طرف ہریالی پھیل گئی اونٹ اس قدر سیر ہوگئے کہ چربی کی وجہ سے ان کے جسمانی اعضاء الگ الگ نظر آنے لگے اس مناسبت سے اس سال کو *عام الفتق* کا نام دیا گیا
*[ هذا حديث صحيح ]*
*┄┅════❁✾✾✾❁════┅┄*
_*اس حــدیــثــــــــ کــی تـصـحــیـح کــرنـــے والــے محـــدثیـــن*_ 👇
◈ شیخ الاسلام امام الائمہ والمسلمین امام ابن حجر عسقلانیؓ نے مشکاۃ المصابیح کی تخریج میں اس حدیث کو *حسن* کہا
📓هداية الرواة إلى تخريج أحاديث المصابيح والمشكاة 5/362 ( حسن کما قال فی المقدمہ 1/58 )
◈ محمود سعيد ممدوح نے کہا قلت : هذا إسناد *حسن* إن شاء الله تعالى
📕 رفع المنارة في أحاديث الزيارة ص203
◈ علامہ سمہودیؒ نے فرمایا روى الدارميّ في *صحيحه* عن أبي الجوزاء ( یعنی امام دارمی نے بسند صحیح روایت کیا آگے پھر پوری روایت بیان کی )
📗 كتاب خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى 2/141
◈ حسن بن علي السقاف فرماتے ہیں قلت: وهذا صريح أيضا بإسناد *صحيح*
📙 الإغاثة ص25
◈ حسين سليم أسد الداراني نے کہا *رجاله ثقات* وهو موقوف على عائشة
📒 سنن دارمی 1/227
❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥
_*اس حــدیــثــــــ کــو ضـعیــف کـہنـــے والــــوں کـــــے دلائـــل کـا رد*_
❗ *پہـــلا اعتـــراض*
ایک وہابی کہتا ہے کہ اس کا راوی *سعید بن زید* ضعیف الحدیث ہے اس لیے البانی نے بھی اس روایت کو ضعیف کہا بقول وہابی
*📝الجــــــــــــــــــــــــــوابــــــــــــــــــــ بعـــــون المــلــــك الــــــوهــــــــــــاب*
‼️ پتا نہیں وہابیہ کیوں البانی کو بےعزت کرانے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں بہرحال ناظرین کرام یہ راوی *صدوق حسن الحدیث* ہے آئیے اصول جرح و تعدیل کی روشنی میں دیکھتے ہیں 👇
*[ أبو الحسن سعيد بن زيد الأزدي ]*
*_اس سے پہلے کہ اس راوی پر مکمل جرح و تعدیل پیش کروں ایک متفقہ اصول سمجھ لیجئے_*
◉ *جرح مفسر* ﴿ یعنی جرح کا سب بیان کیا گیا ہو﴾ *تعدیل* ( مبہم / مفسر ) پر مقدم ہوگی
◉ *تعدیل مفسر ہو یا مبہم* ﴿ یعنی سبب بیان کیا گیا ہو یا نہیں ﴾ *جرح* مبہم پر مقدم ہوگی
جیسا کہ امام نوویؒ نے واضح طور پر فرمایا 👇
يُقْبَلُ التَّعْدِيْلُ مِنْ غَيْرِ ذِکْرِ سَبَبِهِ عَلَی الصَّحِيْحِ الْمَشْهُوْر وَلاَ يُقْبَلُ الْجَرْحُ اِلاَّ مُبَيَّنَ السَّبَبْ
ترجمہ : صحیح اور مشہور رائے یہ ہے کہ اگر تعدیل ہو تو اس کا سبب بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ’’اگر جرح ہو تو وہ اس وقت تک نہیں مانی جائے گی جب تک اس کا سبب تفصیل سے بیان نہ کیا جائے‘‘۔
📓 كتاب التقريب والتيسير للنووي ص49
❗ اور جس ترتیب سے بندہ ناچیز نے لکھا یہ ترتیب خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطیؓ کی ہے ملاحظہ ہو 👇
📕 شرح ألفية السيوطي في الحديث 3/577
◉ اسی طرح یہ بھی متفقہ اصول ہے کہ اگر متشدد امام کسی روای کی تعدیل و توثیق کرے تو وہ اعلی درجہ کی مقبولیت کی حامل ہوتی ہے جیسا کہ امام ذہبیؒ نے امام یحییؒ بن سعید القطان کے بارے میں فرمایا
📘 سـير أعـلام النبـلاء للإمام الذهبي 9/183
‼️ بنیادی اصول آپ لوگوں کے سامنے واضح ہوگئے جو ابھی استعمال ہونے ہیں اس میں مزید کلام بھی ہے لیکن فی الحال اتنا ہی کافی ہے اب چلتے ہیں اس راوی کی جرح و تعدیل کی طرف
*◉➻═════════════➻◉*
*أبو الحسن سعيد بن زيد الأزدي*
*_الجرح والتعديل_*
✦ *أبو بكرؒ البزار* :- لين، ومرة: لم يكن له حفظ
( یہ *جرح مبہم* ہے اور جرح کا پہلا درجہ ہے بالکل معمولی )
✦ *أبو بكر البيهقيؒ* : غير قوي في الحديث
(یہ بھی *جرح مبہم* ہے )
✦ *أبو حاتم الرازيؒ* : ليس بالقوي ( یہ بھی *جرح مبہم* ہے )
✦ *أحمد بن شعيب النسائيؒ* : ليس بالقوي ( *مبہم* )
✦ *الدارقطنيؒ* : ضعيف ( *جرح مبہم* )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
★ *يحيى بن معينؒ* : ثقہ ( *تعدیل مفسر* اور یہ امام جرح میں متشدد بھی ہیں اور اوپر اصول بتا دیا ہے کہ جو امام جرح میں متشدد ہو اس کی تعدیل اعلی درجے کی ہوتی ہے *لہذا یہ تعدیل مفسر مقدم ہیں ان تمام مباہم جروحات پر جو اوپر پیش کی گئی ہے اصول کی روشنی میں* )
★ *محمد بن إسماعيل البخاريؒ* : صدوق حافظ ( *تعدیل مفسر* )
★ *مسلم بن الحجاج النيسابوريؒ* : صدوق حافظ ( *تعدیل مفسر* )
★ *مسلم بن إبراهيم الدورقيؒ* : صدوق حافظ ( *تعدیل مفسر* )
★ *سليمان بن حرب الأزديؒ* : ثقة ( *تعدیل مفسر* )
★ *أبو زرعة الرازيؒ* : ثقة ( *تعدیل مفسر* )
★ *أحمد بن حنبلؒ* : ليس به بأس ( *تعدیل مبہم* )
★ *أحمد بن صالح الجيليؒ* : ثقة ( *تعدیل مفسر* )
❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥
‼️ جی تو ناظرین کرام دیکھا آپ نے ایک جاھل سے جاھل بندہ بھی ان اصولوں کو پڑھنے کے بعد اس جرح و تعدیل کو دیکھ کر بتا دے گا کہ یہ راوی *صدوق حسن الحدیث* ہے کیونکہ اس پر جرح مفسر ایک بھی نہیں اور اس کی تعدیل مفسر کے انبار ہیں اور متشددین سے بھی ثابت ہے پتا نہیں شاید البانی صاحب غائب دماغ ہو کر جرح و تعدیل کرتے تھے
اور یہ تعدیل مفسر اور جرح مفسر کے کلمات آپ لوگ باآسانی 📒 *شرح نخبۃ الفکر* میں دیکھ سکتے ہیں
*============================*
❗ *دوســـــرا اعتــــراضــــں*
ایک دوسرے راوی ابو نعمان جس کا نام محمد بن الفضل ہے، اگرچہ ثقہ راوی ہے مگر آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوا تھا یعنی ضعف حافظہ کے سبب آخری عمر میں صحیح و ضعیف کو مکس کر کے بیان کیا کرتا تھا، علم حدیث میں ایسے مختلط راوی کا حکم یہ ہے کہ جو روایات اختلاط سے قبل کی ہوں وہ مقبول ہوتی ہیں جو اختلاط کے بعد ہوں وہ ناقابل قبول جبکہ جن روایات کے بارے میں علم نہ ہو کہ اختلاط سے قبل کی ہیں یا بعد کی وہ بھی مشکوک ہونے کی بنا پر مقبول نہیں ہوتی، اور مذکورہ روایت بھی انہی میں سے ہے اس کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ اختلاط سے پہلے کی ہے یا بعد کی۔
*📝الجــــــــــــــــــــــــــوابــــــــــــــــــــ بعـــــون المــلــــك الــــــوهــــــــــــاب*
✍️ وہابیوں نے اچھی کوشش کی ضعیف ثابت کرنے کی لیکن ہمیشہ اپنی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں
امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ اپنی *کتاب الکاشف* میں لکھتے ہیں ابو نعمان کو تغیر اس کی موت سے پہلے واقع ہوا اس کے بعد انہوں نے روایت نہیں کی
📓 كتاب الكاشف 2/210
اور حافظ ذہبی *میزان الاعتدال* میں فرماتے ہیں
[ *8057* - محمد بن الفضل السدوسي، أبو النعمان عارم، شيخ البخاري.]
حافظ، صدوق، مكثر.
وقال الدارقطني: تغير بأخرة، وما ظهر له بعد اختلاطه حديث منكر.
وهو ثقة.
ترجمہ: محمد بن فضل امام بخاریؒ کا شیخ حافظ ، صدوق ہے ۔
ابن وارہ نے کہا مجھے بیان کیا عارم صدوق امین نے۔دارقطنیؒ نے کہا کہ اسکی عمر کے آخری وقت میں تغیر آگیا تھا ۔ لیکن اس کے اختلاط کے بعد اس سے کوئی منکر روایت ظاہر نہیں ہوئی۔ اور وہ ثقہ ہیں۔
📙 كتاب ميزان الاعتدال 4/8
*============================*
❗ *تـیـســـرا اعتــــراضـــں*
اس روایت کی سند ضعیف ہے ، اور اس کے راوی (عمرو بن بن مالک نکری) کی حدیث (ابوالجوزاء) سے غیر محفوظ ہوتی ہے، یہ روایت بھی ایسی ہی ہے، حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں : وقال ابن عدي: "حدث عنه عمرو بن مالك قدر عشرة أحاديث غير محفوظة امام ابن عدیؒ نے فرمایا ہے کہ ابن الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریبا دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔[تهذيب التهذيب ۱۔۳۸۴]
یہ جرح مفسر ہے، یہ اثر بھی عمرو بن مالک النکری نے اپنے استاذ ابوالجوزاء سے روایت کیا ہے، لہذا غیر محفوظ ہے۔
*📝الجــــــــــــــــــــــــــوابــــــــــــــــــــ بعـــــون المــلــــك الــــــوهــــــــــــاب*
✍️ اچھی کوشش تھی مگر یہاں پر بھی جہالت دکھائی وہابیوں نے امام ابن عدیؒ کی یہ جرح عمرو بن مالک النکری پر نہیں بلکہ *عمرو بن مالک راسبی* پر ہے اس بات کی وضاحت خود امام ابن حجرؒ نے تہذیب التہذیب میں اور امام ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں کر دی ہے ملاحظہ ہو امام ذہبیؒ کیا فرماتے ہیں 👇
[6435 - عمرو بن مالك الراسبي البصري لا النكرى.]
هو شيخ حدث عن الوليد بن مسلم ضعفه أبو يعلى وقال ابن عدي: يسرق الحديث وتركه أبو زرعة
ترجمہ: فرماتے ہیں یہ عمرو بن مالک راسبی ہے نکری نہیں پھر آگے ابن عدی کی وہی جرح نقل کی
*امام ذہبیؒ نے نکری کا علیحدہ ذکر کیا بغیر جرح کے* 👇
[6436 - عمرو بن مالك النكرى، عن أبي الجوزاء.]
امام ذہبیؒ تاریخ اسلام میں فرماتے ہیں 👇
عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ، أَبُو يَحْيَى وَقِيلَ أَبُو مَالِكٍ. بَصْرِيٌّ صَدُوقٌ.رَوَى عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ أَوْسِ الرَّبَعِيِّ.عمرو بن مالک النکری *صدوق* ہیں۔
📒 تاریخ الاسلام للذہبی 8/194
ابن حجرؒ نے عمرو بن مالک الراسبی کے ترجمہ میں النکری والی بات لکھ کر ابن عدی کی غلطی ثابت کی۔
📗 تہذیب التہذیب 8/90 پر پڑھئے۔
ابن حبانؒ نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے اور کہا: وہ خطا کرتے ہیں 240ھ کے بعد انکی موت ہوئی میں نے کہا ابن عدیؒ نے کہا وہ ثقات سے منکر حدیث بیان کرتے تھے (حدیث چراتے تھے) ابو یعلی سے سنا تھا وہ فرماتے تھے کہ وہ ضعیف ہے پھر انکی دو حدیثیں بیان کرکے فرمایا ان کے علاوہ بھی انکی اور منکر روایتیں ہیں اس کے ترجمے کے شروع میں انہوں نے عمرو بن مالک النکری کہا تھا یہ ان سے غلطی (وہم) ہوا تھا کیونکہ عمرو بن مالک النکری اس پر مقدم ہے۔
بس یہی وجہ تھی کہ ابو یعلی نے اسکو منکر الحدیث کہا اور ابن عدی نے اسکو منکر الحدیث کہا۔ اور اسی جرح کو ابن حبان نے اس غلطی کی وجہ سے لکھی حقیقت واضع ہو گئی کہ یہ عمرو بن مالک الراسبی تھا ناکہ النکری۔
*عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ* صدوق راوی ہیں جیسا کہ بتا دیا گیا
*┄┅════❁✾✾✾❁════┅┄*
❗ *چــوتـھــا اعتــــراضـــں*
ابو الجوزاء کا حضرت عائشہؓ سے سماع ثابت نہیں، ابن عبد البرؒ نے کہا۔
*📝الجــــــــــــــــــــــــــوابــــــــــــــــــــ بعـــــون المــلــــك الــــــوهــــــــــــاب*
یہ وہ اعتراض ہے جس پر وہابی سر توڑ کوشش لگا دیتے ہیں کہ بس اب یہ روایت ضعیف ہوگئی مگر ایسا نہیں ہے امام ابن عبدالبرؒ کی اس بات کا جمہور ناقدین نے رد کیا ہے
◈ *أبي الجوزاء، عن عائشة* اس سند سے امام مسلمؒ نے اپنی صحیح مسلم میں روایت لی یعنی امام مسلم کے نزدیک ابو الجوزء کا سیدہ عائشہ سے سماع ثابت ہے ورنہ وہابی یہ تسلیم کریں کہ صحیح مسلم میں بھی ضعیف روایت ہے جو کہ مرتے دم تک نہیں کہیں گے یہ کوئی تدلیس کا معاملہ تھوڑی ہے جو کہہ دیں کہ صحیحین میں تدلیس قبول ہے اور باہر نہیں یہ سماع کا معاملہ ہے
📓 صحيح مسلم 1/357
◈ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی امام ابن عبدالبرؒ کی بات کا رد اپنی کتاب میں کیا اور دلیل یہی دی کہ امام مسلم نے اسی سند سے روایت لی ہیں
📕 تہذیب التہذیب 1/384
◈ اور محقق العرب علامہ شعیب الارنووطؒ نے بھی امام ابن عبدالبرؒ کی بات کو بلا دلیل قرار دیکر انکا رد لکھا ہے
📙 صحیح ابن حبان 5/65
◈ امام حاکمؒ نے اسی سند سے ( أبي الجوزاء، عن عائشة) مستدرک میں روایت لے کر اس کو صحیح کہا اور تلخیص میں حافظ ذہبیؒ نے بھی مسلم کی شرط پر صحیح کہا
📗 المستدرک علی الصحیحین 1/360
◈ المحدث امام العینیؒ شارح بخاری نے بھی ابو الجوزاء کا سماع اماں عائشہ سے ثابت لکھا ہے
📓 شرح سنن ابی داؤد 3/389
◈ امام المحدث الاثیرؒ نے بھی ابو الجوزاء کا سماع حضرت عائشہؓ سے ثابت لکھا ہے
📒 جامع الاصول ص183
◈ امام ابن حبانؒ ابو الجوزاء کی روایت حضرت عائشہؓ سے اپنی صحیح میں لائے ہیں ۔ وہ بھی انکی روایت کو محمول علی سماع مانتے تھے
📕 صحیح ابن حبان 7/229
◈ امام ابن خزیمہؒ نے بھی ابو الجوازء کی حضرت عائشہؓ سے روایت کو اپنی صحیح میں لیا ۔ یعنی انکے نزدیک بھی اس سند میں کوئی انقطاع نہیں
📙 صحیح ابن خزیمہ ح699
◈ امام ابو یعلیٰؒ مسند میں ابو الجوزاء کی حضرت عائشہؓ سے روایت لائے ہیں اور محقق سلیم اسد جو کہ سنن دارمی کا بھی محقق ہے اس نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے
📗 مسند ابویعلی موصلی 5/337
◈ امام ابو جعفر طحاوی الحنفیؓ المحدث نے بھی ابو الجوزء کی عن عائشہ والی روایت سے استدلال کیا ہے اور کوئی انقطاع کا زکر نہیں کیا
📘 شرح معانی الآثار ح1207
◈ امام نوویؒ نے شرح مسلم میں خود اس سند سے دلیل لی ہے اور کسی قسم کے انقطاع کا زکر نہیں کیا نہ ہی روایت کی صیحت پر کلام کیا ۔۔۔ اور امام نووی اگر اس میں عدم سماع کی علت مانتے تو ضرور زکر کرتے جیسا کہ انہوں نے اعمش والے معاملے پر صحیح مسلم کی روایت پر اعتراض کیا تھا
📘 صحیح مسلم بشرح للنووی 4/213
◈ اور امام ملا علی قاری الحنفیؒ بھی ابو الجوزاء کا سماع حضرت عائشہؓ سے ثابت مانتے ہیں
📒 مرقاۃ المفاتیح 11/95
◈ اسی طرح امام ابن اعراقیؒ٬ امام زیلعیؒ٬ اور وھابیہ کے محققین میں اثری٬ مبارکپوری٬ اور دیگر محققین میں شعیب الأرنؤوط٬ حسین اسد٬ وغیرہ ابو الجوزاء کا سیدہ عائشہ سے سماع کے قائل ہیں
‼️ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ ابو الجوزاء کا سیدہ عائشہ سے سماع ثابت ہے امام ابن عبدالبرؒ کے قول کا رد ناقدین و محققین نے بڑی شدومد سے کیا
*─┄━•✦✦✦✾※※✾✦✦✦•━┅─┄*
*خــــــــــلاصــــــــــہ کـــــلام*
✍️ پوری گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ وہابیہ اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے اس پر چار اعتراض کرتے ہیں اور ہم نے چاروں کا علم حدیث اور اصول جرح و تعدیل کی روشنی میں مدلل و مفصل منہ توڑ جواب دیا کیونکہ اس حدیث سے نبی ﷺ کے روضہ انور سے توسل ثابت ہو رہا ہے حضور کی ذات تو وراالوریٰ ہے نہ یہاں تو حضور کے روزہ انور سے توسل ثابت ہورہا ہے اور تعلیم دینے والی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ بنت صدیقؓ نبی ﷺ کی سب سے زیادہ محبوب زوجہ ہیں اس لئے وہابی اس حدیث کو قبول نہیں کرتے اللہ تعالی ان کو ہدایت نصیب فرمائے اور ہمیں راہ حق پر قائم و دائم رکھے آمین
*فقـــــــــــــط واللہ ورسولـــــــــــــہٗ اعلـــــــــم*
*شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم* ✍️
*____خادم اہلسنت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی____★᭄✨🌸*
No comments:
Post a Comment
Don't comment any spam link in comment box