Sunni hanafi Barelwi k aqaid ka saboot quran o hadees ki roshni me our badmajhab wahabi,deobandi,etc k batil aqaid ka radd quran o hadees ki roshni me scan k sathh pesh kiye gae hai


Thursday, June 11, 2020

Imam k pichhe khamoshi ya fitiha(urdu post)

💢 امام کے پیچھے خاموشی یا فاتحہ؟ 💢

ایک مکمل پوسٹ جس کے بعد اہلحدیث رجسٹرڈ کا مؤقف ہمیشہ کے لیے دفن.

اہلحدیث رجسٹرڈ کا مؤقف ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی پہ سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے.
اگر کوئی نہیں پڑھتا تو اس کی نماز نہیں ہو گی.

اب درج بالا باطل مؤقف پہ اہلحدیث رجسٹرڈ کے پاس ویسی ہی دلیلیں ہیں جیسی علم حدیث سے ناواقفیت کے باوجود خود کے اہلحدیث ہونے پہ دلیلیں رکھتے ہیں.

❓اگر مقتدی پہ سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور تابعین رحمہ اللہ نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ان کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟
❓نیز سورہ فاتحہ اگر مقتدی پہ فرض ہے تو کتنی بار پڑھنا فرض ہے؟
ایک بار یعنی ایک رکعت میں یا ہر رکعت میں؟
اگر ہر رکعت میں پڑھنا فرض ہے تو کوئی صریح دلیل؟

❓نماز میں سورہ فاتحہ کے علاوہ کونسی چیزیں مقتدی کے لیے فرض قرار دی گئ ہیں؟
❓فرض کی تعریف کیا ہے؟
درج بالا کسی ایک سوال کا جواب آج تک کسی اہلحدیث رجسٹرڈ نے نہیں دیا جواب نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں خود بھی علم نہیں.

⭕خیر اب دلائل کی طرف آتے ہیں
اہلحدیث رجسٹرڈ سے جب پوچھا جاتا ہے کہ مقتدی بھی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھیں گے اس پہ کوئی دلیل دو تو مسلم شریف کی ایک غیر صریح حدیث پیش کرتے ہیں.
♦️اہلحدیث رجسٹرڈ کی پہلی دلیل اور اس کا جواب.

عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال  من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ثلاثا غير تمام فقيل لأبي هريرة إنا نكون وراء الإمام فقال اقرأ بها في نفسك۔(صحیح مسلم)
یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں. سائل نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے پوچھا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں تب کیا کریں؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اقرا بھا في نفسك.
تب تم اپنے نفس میں پڑھو.

#الجواب
اس حدیث کے 2 حصے ہیں.
#پہلاحصہ
پہلے حصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں.

#الجواب
💓 الحمد للہ ہم بھی مانتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں اسی لیے ہم جب اکیلے نماز پڑھتے ہیں تب خود سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں جب امام کے پیچھے ہوں تو ہمارے امام سورہ فاتحہ پڑھ دیتے ہیں اس طرح ہماری کوئی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر نہیں رہتی.

#ہمارااعتراض.

اہلحدیث رجسٹرڈ کی پیش کردہ اس حدیث پہ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ اس کے مرفوع حصہ یعنی پہلے حصہ میں مقتدی یا امام کا تو ذکر ہی نہیں پھر مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض کیسے ہو گیا؟
صحابی رسول حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ جماعت میں اس وقت ملے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جا رہے تھے. اگر سورہ فاتحہ پڑھنا مقتدی کے لیے فرض ہوتا تو نبی کریم اپنے صحابی ابوبکرہ رضی اللہ کو نماز دہرانے کا کہتے مگر ایسا نہیں کہا گیا.
ثابت ہوا مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں.

#دوسراحصہ

دوسرے حصہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا شاگرد پوچھتا ہے کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوں تب کیا کریں؟
تو ابوہریرہ رضی جواب دیتے ہیں کہ جب تم امام کے پیچھے ہو تب نفس میں پڑھو
🔴 #انتہائی_غورطلب

اگر حدیث کا مرفوع حصہ مقتدی کے لیے بھی ہوتا تو حضرت ابوہریرہ رضی کا شاگرد امام کے پیچھے کیا کریں والا سوال ہی نہ کرتا.
بالفرض انجانے میں سوال کر بھی لیا تھا تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ یوں نہ فرماتے کہ نفس میں پڑھو بلکہ فرماتے تب بھی ویسا ہی کرو یا یوں فرماتے تب بھی پڑھو.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کا یہ فرمانا کہ امام کے پیچھے نفس میں پڑھو اس بات کی دلیل ہے کہ امام کے پیچھے اس طرح سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی جس طرح اکیلے نماز پڑھتے ہوے سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے.

💢 اہلحدیث رجسٹرڈ کا مؤقف
یہاں اہلحدیث رجسٹرڈ والے مؤقف اپناتے ہیں کہ اقرا بها في نفسك سے مراد دل نہیں بلکہ زبان سے آہستہ پڑھنا مراد ہے.

💓 ہمارا اعتراض
بالفرض مان لیا جاے کہ اقرا بھا في نفسك سے مراد زبان سے آہستہ پڑھنا ہے تو حدیث کا مطلب ہی الٹ ہو جاتا ہے.

🔹یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھو
پوچھنے والے نے پوچھا کہ جب امام کے پیچھے ہوں تب کیا کریں؟ جواب ملا تب آہستہ پڑھو
یعنی اکیلے نماز پڑھتے وقت سورہ فاتحہ بلند پڑھنی ہے جب امام کے پیچھے ہو تو اقرا بھا في نفسك تب آہستہ پڑھنی ہے. (مفہوم) 🔹
❓اب اہلحدیث رجسٹرڈ سے سوال ہے کہ کیا تم جب اکیلے نماز پڑھتے ہو تب بلند آواز میں اور امام کے پیچھے آہستہ آواز میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہو؟ ہرگز نہیں
اگر نہیں تو پھر ابوہریرہ رضی اللہ کے قول اقرا بھا في نفسك سے کیا مراد ہوئی؟

اب یہاں الفاظ اقرا بها في نفسك سے مراد کیا ہے ہم اہلحدیث رجسٹرڈ سے پوچھتے ہیں.

اہلحدیث رجسٹرڈ والے  لفظ اقرا کے مطلب کے لیے نہ قرآن کو دیکھتے ہیں نہ ہی حدیث کو بلکہ سیدھا امام شافعی رحمۃ اللہ کے قول کو حجت بناتے ہوے دلیل دیتے ہیں کہ قرات زبان کے ساتھ خاص ہے.
اسی طرح نفس کے معنی کے لیے بھی قرآن و حدیث کو چھوڑ کر سیدھا ہمارے علما کے ترجمے پیش کر دیتے ہیں کہ فلاں فلاں عالم نے نفس کے معنی زبان سے آہستہ پڑھنا کیے ہیں.

💓 چلیں ہم اس اختلافی مسلہ (اقرا بها في نفسك) کو اللہ و رسول کی طرف لوٹاتے ہیں.

امید ہے اہلحدیث رجسٹرڈ والے امتیوں کے اقوال کی بجاے قرآن و حدیث کو ہی ترجیح دیں گے. 💓

سب سے پہلے قرآن سے کہ قرآن لفظ اقرا کے بارے کیا کہتا ہے.

(لَا تُحَرِّكۡ بِهِۦ لِسَانَكَ لِتَعۡجَلَ بِهِۦۤ)

قرآن کہتا ہے اے نبی(جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو) قرآن کو یاد کرنے کی غرض سے بھی زبان کو حرکت مت دو

(فَإِذَا قَرَأۡنَـٰهُ فَٱتَّبِعۡ قُرۡءَانَهُۥ)
بلکہ جب ہم قرآن پڑھ چکیں (وحی) تو اس کی پیروی کرو
 ✅ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہ جب وحی کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یاد کرنے کی غرض سے جلدی جلدی زبان کو حکت دیتے یعنی ساتھ ساتھ دہراتے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو زبان کو حرکت مت دیجیے. ✅

✅ یہاں ایک بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئ وہ یہ کہ
یاد کرنے کی ایک معقول وجہ کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھے جانے کے وقت زبان ہلانے سے منع کر دیا گیا.
جب نبی جیسی ہستی کو قرآن پڑھے جانے پہ خاموشی کا حکم ہے تو اہلحدیث رجسٹرڈ والے نماز جیسی عظیم عبادت میں امام کےپیچھے کس حیثیت سے زبان ہلاتے ہیں؟

دوسری بات اگر قرات زبان کے ساتھ خاص ہے تو جب وحی کی جاتی تو کیا اللہ تعالیٰ زبان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھ کر سناتا؟
اگر ایسا ہے تو صرف عرش والا عقیدہ تو ٹوٹ گیا کیونکہ نبی پہ وحی تو کبھی بستر پہ کبھی غار میں کبھی سواری پہ کی گئ.

⬅️ شاید اہلحدیث رجسٹرڈ والے سوچ رہے ہوں کہ خود ہی آیت لگا کر خود ہی تفسیر کر دی.
چلیں ہم مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ان آیات کی تفسیر پوچھتے ہیں.

♦️صحیح بخاری حدیث نمبر 5 باب وحی کا بیان♦️

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا  پھر یہ آیت اتری کہ اے محمد! قرآن کو جلد جلد یاد کرنے کے لیے اپنی زبان نہ ہلاؤ۔ اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارا ذمہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یعنی قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جما دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب ہم پڑھ چکیں تو اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  ( اس کا مطلب یہ ہے )  کہ آپ اس کو خاموشی کے ساتھ سنتے رہو۔ اس کے بعد مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے.

یہاں اس تفسیر میں قرآنہ کا مطلب ابن عباس رضی اللہ عنہ دل میں جما دینا یا سمجھا دینا کر رہے ہیں.
یہ نہیں کہا کہ قرانہ زبان کے ساتھ خاص ہے.
جبکہ ہم بھی اقرا بها في نفسك سے مراد دل میں غور وفکر کرنا لیتے ہیں.
قارئین یہاں اوپر قرآن مجید سے ہم نے اقرا کی وضاحت کر دی آگے چلتے ہیں لفظ نفس کی طرف.

🔴 چلیں لفظ نفس کے معنی امتیوں کے اقوال  کی بجاے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے لیتے ہیں.

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :    مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هَذَا ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ فِيهِمَا نَفْسَهُ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص میری طرح ایسا وضو کرے، پھر دو رکعت پڑھے، جس میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کرے۔ تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 159)

یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوران نماز نفس میں کوئی بات نہ کرنے کا فرمان جاری فرما رہے ہیں
اب اگر نفس سے مراد زبان سے آہستہ پڑھنا ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا مطلب کہ دوران نماز نفس میں کچھ مت بولو؟

درج بالا حدیث سے یہ بات واضح ہو گئ کہ نماز میں نفس سے مراد دل میں غور و فکر کرنا ہے ناکہ آہستہ پڑھنا.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ ساری کی ساری توجہ نماز کی طرف ہو دل میں وسوسوں کو مت لایا جاے یا دنیاوی خیالوں کی طرف توجہ نہ دی جاے.
ہم بھی اقرا بها في نفسك سے یہی مراد لیتے ہیں کہ توجہ صرف امام کی قرات کی طرف رکھی جاے قرآن کو غور سے سنا جاے اور دل میں اس پہ غور و فکر کی جاے تاکہ دوسرا کوئی وسوسہ دل میں جنم ہی نہ لے.
A. H. M

(اس سلسلہ کا یہ پہلا حصہ ہے دوسرا حصہ بہت جلد لگا دیا جاے گا)



No comments:

Post a Comment

Don't comment any spam link in comment box

Huzoor ﷺ Ka ilm e Gaib Aur Yazeed Ka Fitna

 *Huzoor ﷺ Ka ilm e Gaib Aur Yazeed Ka Fitna* ¹ Hazrat Imam *Na'eem Bin Hammad* Bin Muawiya Al Mutawaffah *228* Hijri & ² Hazrat Ima...